دل شوریدہ! بتا تیری یہ عادت کیا ہے
ہم سے ہی پوچھ رہا ہے کہ محبت کیا ہے
نہ محبت، نہ مروت، نہ ملاقات رہی
گر یہی دوستی ٹھہری تو عداوت کیا ہے
ہم نہ کہتے تھے کہ یادوں کو سنبھالے رکھنا
اب جو تنہائی کا عالم ہے تو حیرت کیا ہے
غیر کو ساتھ لیے آئے ہو ہم سے ملنے
فتنہ انگیزی یہ کیسی، یہ قیامت کیا ہے
زلف زنجیر ستم،۔ تیغ جفا ہیں ابرو
دلِ وحشت زدہ! اب بچنے کی صورت کیا ہے
کیسی بے مہری سے رخصت ہوا وہ توڑ کے دل
پوچھ تو لیتا تِری آخری حسرت کیا ہے
کس لیے زندہ ہوں میں اس سے بچھڑ کے مشتاق
مجھ سے پوچھو کہ مِرے دل میں ندامت کیا ہے
مشتاق سنگھ
No comments:
Post a Comment