Wednesday, 24 February 2021

ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے

 ہر تلخ حقیقت کا اظہار بھی کرنا ہے

دنیا میں محبت کا پرچار بھی کرنا ہے

بے خوابیٔ پیہم سے بیزار بھی کرنا ہے

بستی کو کسی صورت بیدار بھی کرنا ہے

دُشمن کے نشانے پر کب تک یونہی بیٹھیں گے

خود کو بھی بچانا ہے اور وار بھی کرنا ہے

شفاف بھی رکھنا ہے گُلشن کی فضاؤں کو

ہر برگِ گُلِ تر کو تلوار بھی بھی کرنا ہے

اس جُرم کی نوعیت معلوم نہیں کیا ہے

انکار بھی کرنا ہے، اقرار بھی کرنا ہے

کانٹوں سے اُلجھنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے

پھولوں سے محبت کا اظہار بھی کرنا ہے

ہونے بھی نہیں دینا بحران کوئی پیدا

مؤقف پہ ہمیں اپنے اصرار بھی کرنا ہے

طے لمحوں میں کر ڈالیں صدیوں کا سفر لیکن

اس راہ کو اے روحیؔ ہموار بھی کرنا ہے


روحی کنجاہی

No comments:

Post a Comment