شام بے مہر میں اک یاد کا جگنو چمکا
اور پھر ایک ہی چہرہ تھا کہ ہر سو چمکا
اے چراغِ نگہِ یار میں جاں سے گزرا
اب مجھے کیا جو پئے دِلزدگاں تو چمکا
روز ملتے تھے تو بے رنگ تھا تیرا ملنا
دور رہنے سے تِرے قرب کا جادو چمکا
دل میں پھر بجھنے لگا ضبط کا تارا کوئی
پھر مِری نوکِ مژہ پر کوئی آنسو چمکا
تاجِ خسرو کی چمک ماند پڑی جاتی ہے
شہر کے کوچہ و بازار میں لوہُو چمکا
کھو گیا ہے انہی تاریک خلاؤں میں کہیں
وہ بھی کیا چاند تھا جس سے مِرا پہلو چمکا
میں نے جانا کہ فراست کوئی غم خوار آیا
عکسِ مہتاب کچھ اس طرح لبِ جُو چمکا
فراست رضوی
No comments:
Post a Comment