تِرے خیال تِری آرزو سے دور رہے
نواب ہو کے بھی ہم لکھنؤ سے دور رہے
بدن کے زخم تو چارہ گروں نے سی ڈالے
مگر یہ روح کے چھالے رفُو سے دور رہے
زمیں پہ ٹپکا تو یہ انقلاب لائے گا
اسے بتا دو، وہ میرے لہو سے دور رہے
کیا ہے ہم نے تیمّم بھی خاکِ مقتل پر
نمازِ عشق پڑھی اور وضو سے دور رہے
مِری زبان کا چرچا تھا آسمانوں پر
زمین والے مِری گفتگو سے دور رہے
ہاشم رضا جلالپوری
No comments:
Post a Comment