آئینے کا ساتھ پیارا تھا کبھی
ایک چہرے پر گزارا تھا کبھی
آج سب کہتے ہیں جس کو ناخدا
ہم نے اس کو پار اُتارا تھا کبھی
یہ مِرے گھر کی فضا کو کیا ہوا
کب یہاں میرا تمہارا تھا کبھی؟
کیسے ٹکڑوں میں اسے کر لوں قبول
جو مِرا سارے کا سارا تھا کبھی
آج کتنے غم ہیں رونے کے لیے
اک تِرے دکھ کا سہارا تھا کبھی
عشق کے قصے نہ چھیڑو دوستو
میں اسی میداں میں ہارا تھا کبھی
کون کہہ سکتا ہے اس کو دیکھ کر
یہ وہی ہے جو ہمارا تھا کبھی
شارق کیفی
No comments:
Post a Comment