کنائے کچھ ملے جب مصحفی سے
اٹھائے لفظ دکن کے ولی سے
ملے کیسے، بتانا ہی کسے ہے؟
گُہر درویش کی دریا دلی سے
نہیں بھایا فلک کے رہ نوردو
تمہاری راہ چلنا کج روی سے
یہاں تو اور ہی دن رات نکلے
ڈرا تھا حُسن کی ہمسائیگی سے
وہی ہے اضطرابِ زندگانی
کہاں راحت میسر آگہی سے؟
عجب ہوتی ہیں انسانوں کی سوچیں
نہیں کہنا کسی بھی آدمی سے
احمد سجاد بابر
No comments:
Post a Comment