Wednesday, 24 February 2021

خواب نچڑے پڑے ہیں مقتل میں

 خواب، نچڑے پڑے ہیں مقتل میں 

اشک سہمے پڑے ہیں مقتل میں 

نبض کاٹی گئی ہے جذبوں کی 

سانس اکھڑے پڑے ہیں مقتل میں 

جیسے سورج ڈھلا ہو میدان میں 

رنگ بکھرے پڑے ہیں مقتل میں 

سر پہ آئی ہے شام ہجراں کی

اور لمحے پڑے ہیں مقتل میں

میں اک بے نوا مصنف ہوں 

میرے قصے پڑے ہیں مقتل میں 

کیسے تخلیق ہو غزل میری

لفظ پھیلے پڑے ہیں مقتل میں


تنویر سلیمی

No comments:

Post a Comment