Saturday, 20 February 2021

کھلونا موت بھی ہے

 کھلونا موت بھی ہے

مِرے جسم کے پینتروں سے پریشاں تھی وہ 

میں نے سمجھانا چاہا اسے 

خدا جانتا ہے 

کہ رتی برابر مجھے اور جینے کی خواہش نہیں 

سچ تو یہ ہے 

ایسے مہمان سے منہ چھپانا 

کہ جو صرف میرے لیے آسمانوں سے آیا ہو 

شرمندہ کرتا ہے مجھ کو 

بھلا ایک انساں کے بس میں کہاں موت کو چھیڑنا 

میں تو ڈرتا ہوں تم سے 

یہ کوئی اور ہے جو مِرے سرد پیروں کو پھر گرم کر کے تمہیں چھیڑتا ہے 

مِرے گھر کے چکر لگانے پہ مجبور کرتا ہے 

مگر وہ سِسکتی رہی 

اپنے پیروں کے چھالوں کو روتی رہی 

اور میں حیرت زدہ 

سوچنے پر یہ مجبور تھا 

کیا مِری موت بھی 

میرے مرنے کے دن 

میری سانسوں کی گنتی کے بارے میں اتنی ہی انجان ہے 

جتنا میں


شارق کیفی

No comments:

Post a Comment