Saturday, 27 March 2021

جہاں تم ہو آنکھ ہی درد پہچانتی ہے

 جہاں تم ہو 


آنکھ ہی درد پہچانتی ہے

میں اس روٹ پر

پہیلی گاڑی کا مہماں تھا

بے طرح گھومتی گیند پر اب نفس جتنے انفاس کا اور مہمان ہے

ان کی گنتی مِری داستاں میں نہیں

خاک کی ناف سے خاک کے بطن تک

چند ساعات کی روشنی

پوششیں بتیاں تازہ ماڈل کلب

تازہ رخ گاڑی اور بان اور گل چہرہ انٹرپریٹر

یہی چار آئینہ چہرہ

کہ چہرے میں تصویر ایام سے

رونقوں میں بسے اس طلسمات میں

دن جو ویراں کٹے

جوششیں گھنی رات میں کھو گئیں

سو گئیں

آسمانوں پہ خالی کا چاند

ناک نقشہ بکھرنے پہ قادر ہوا

جس کی تحویل میں دو مندے دائرے آنکھ کے ہیں

فقط آنکھ کے ہاتھ پر نقش ہیں آنکھ خالی نہیں


احسان اکبر

No comments:

Post a Comment