جہاں تم ہو
آنکھ ہی درد پہچانتی ہے
میں اس روٹ پر
پہیلی گاڑی کا مہماں تھا
بے طرح گھومتی گیند پر اب نفس جتنے انفاس کا اور مہمان ہے
ان کی گنتی مِری داستاں میں نہیں
خاک کی ناف سے خاک کے بطن تک
چند ساعات کی روشنی
پوششیں بتیاں تازہ ماڈل کلب
تازہ رخ گاڑی اور بان اور گل چہرہ انٹرپریٹر
یہی چار آئینہ چہرہ
کہ چہرے میں تصویر ایام سے
رونقوں میں بسے اس طلسمات میں
دن جو ویراں کٹے
جوششیں گھنی رات میں کھو گئیں
سو گئیں
آسمانوں پہ خالی کا چاند
ناک نقشہ بکھرنے پہ قادر ہوا
جس کی تحویل میں دو مندے دائرے آنکھ کے ہیں
فقط آنکھ کے ہاتھ پر نقش ہیں آنکھ خالی نہیں
احسان اکبر
No comments:
Post a Comment