منہ پھیر کر وہ سب سے گیا بھی تو کیا گیا
کم بخت سارے شہر کو پاگل بنا گیا
پتھر کو بولنے کی ادائیں سکھا گیا
وہ شخص کیسے کیسے تماشے دکھا گیا
اس کو یہاں سے جانے کا بے حد ملال تھا
مڑ مڑ کے اپنے گھر کی طرف دیکھتا گیا
دنیائے خواب اور حقیقت کے درمیاں
تھوڑا جو فاصلہ تھا اسے بھی مٹا گیا
سب جانتے ہوئے بھی میں انجان ہی رہا
اس نے سمجھ لیا کہ میں دھوکے میں آ گیا
یہ کون دے رہا ہے در دل پہ دستکیں
یہ کون میرے خواب کی دیوار ڈھا گیا
کچھ اور پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی
ہلکے سے مسکرا کے وہ سب کچھ بتا گیا
دے تو گیا عذاب جدائی مجھے، مگر
گرہیں جو دل میں تھیں وہ انہیں کھولتا گیا
کوئی بھی عذرِ لنگ کی صورت نہیں رہی
لو، اب تمہارے سامنے آئینہ آ گیا
جس کا ہر ایک نقش کفِ پا ہے آئینہ
اس راہرو کو ڈھونڈنے خود راستہ گیا
قیصر صدیقی
No comments:
Post a Comment