Saturday, 27 March 2021

منہ پھیر کر وہ سب سے گیا بھی تو کیا گیا

 منہ پھیر کر وہ سب سے گیا بھی تو کیا گیا 

کم بخت سارے شہر کو پاگل بنا گیا 

پتھر کو بولنے کی ادائیں سکھا گیا 

وہ شخص کیسے کیسے تماشے دکھا گیا

اس کو یہاں سے جانے کا بے حد ملال تھا 

مڑ مڑ کے اپنے گھر کی طرف دیکھتا گیا 

دنیائے خواب اور حقیقت کے درمیاں

تھوڑا جو فاصلہ تھا اسے بھی مٹا گیا

سب جانتے ہوئے بھی میں انجان ہی رہا

اس نے سمجھ لیا کہ میں دھوکے میں آ گیا

یہ کون دے رہا ہے در دل پہ دستکیں

یہ کون میرے خواب کی دیوار ڈھا گیا

کچھ اور پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی

ہلکے سے مسکرا کے وہ سب کچھ بتا گیا

دے تو گیا عذاب جدائی مجھے، مگر

گرہیں جو دل میں تھیں وہ انہیں کھولتا گیا

کوئی بھی عذرِ لنگ کی صورت نہیں رہی

لو، اب تمہارے سامنے آئینہ آ گیا

جس کا ہر ایک نقش کفِ پا ہے آئینہ

اس راہرو کو ڈھونڈنے خود راستہ گیا


قیصر صدیقی

No comments:

Post a Comment