Thursday, 24 June 2021

بازگشت نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم

بازگشت


نغمہ زارِ درد کی جانب چلے ہم

ایک بھی ذرّہ نہ کُچلا جائے اس رفتار سے

نغمہ زارِ درد کی جانب چلے ہم

کُنج میں پیڑوں کے سُورج جھانکتا تھا

کوہساروں سبزہ زاروں میں جھمکتی روشنی کا جشن تھا

جشن جاری ہی رہے گا تا ابد جاری رہے

نغمہ زار درد کی جانب چلے ہم

لعل و مرمر سے گُندھا قالب

اور اس کے ماوراء اس کے قریب

بجلیوں جیسا مصفّی اک وجود

چار سُو بکھرے ہوئے خاموش سُونے آسماں

ہم کہاں ہیں ہم کہاں، نغمہ زار درد ہے یہ (ہم کہاں)

اتنا بے آواز جیسے

آتما اپنی شُعاعیں

ریشے ریشے سے بدن کے کھینچ لے

آہستگی سے بے گزند

اور دُوری بے فغاں ہو جسم کی اور رُوح کی

کیا سُبک رفتار کر دیتی ہے ہم کو بے دلی، بے حاصلی

جیسے اک بادل کا ٹُکڑا

اپنی چھاگل پھینک دے اُونچی فضا میں

پیاسے ذرّوں کی طرف

پھر ہلکے پُھلکے پنکھ پھیلائے، اُڑے

ہلکورے لے

اک مٹتی بنتی رنگ کی تحریر سی

سیراب ذرّے اس کو دیکھیں

اور پُکار اُٹھیں

وہ کافوری سا شُعلہ، عظمتِ نارس

دوام درد ہے وہ سُرخ نرمل روشنی

(لو سانس کے سرچشمے سُوکھے ہر شکایت مٹ گئی)

کیا شکایت سانس کے سرچشمہ سے ان کو رہی

جو سانس لیتے ہیں یہاں؟

موج بے ہنگام خندہ

کیسے پُھوٹی میرے لب سے

کوئی شکتی ہم میں ہے؟

جو یوں ہمیں پامال کر کے ہنس سکے

یہ ہمیں آغاز ہی سے ختم کرنے پر تُلی تھی

چاہے پھر خود ہی مجاور بن سکے انجام کار

احتجاج اس کا جو اک شکتی ہے مجھ میں

کس قدر پُر شُور ہے

کس قدر پُر زور ہے

نغمہ زارِ درد سے آگے لیے جاتا مجھ کو

ان فضاؤں میں جہاں

بازگشت اک گیت بن جاتی ہے اس کی

جیسے سب ٹیلے چٹانیں اور کُہستاں

سانس کے چشمے میں شامل ہیں

دھڑکتے ذی نفس اور ہمنوا


شفیق فاطمہ شعریٰ

No comments:

Post a Comment