Friday 25 June 2021

داغ دل اپنا کسی طرح دکھائے نہ بنے

 داغِ دل اپنا کسی طرح دِکھائے نہ بنے

اور چاہوں جو چھُپانا تو چھُپائے نہ بنے

دامنِ دل میں وہ جب چاہیں لگا دیں اک آگ

ہم اگر چاہیں بُجھانا تو بُجھائے نہ بنے

تم کو منظور نہیں اپنے تغافل سے گریز

ہم پہ بن آئی ہے ایسی کہ بنائے نہ بنے

اُف رے یہ تیرہ نصیبی یہ اندھیرے کا فروغ

دِیپ آنکھوں کا جلاؤں تو جلائے نہ بنے

ہائے، یہ فطرتِ حسن اُف وہ مزاج نازک

ناز اُٹھانا بھی جو چاہوں تو اُٹھائے نہ بنے

سوچ کے دیجئے دیوانے کو دامن کی ہوا

یہ بھی ممکن ہے کہ پھر ہوش میں آئے نہ بنے

ناز ہے طاقت گُفتار پہ ماہر کو، مگر

دل پہ گزری ہے کچھ ایسی کہ سُنائے نہ بنے


ماہر آروی

No comments:

Post a Comment