تُو جا چکی ہے
تِرے تصور میں کھو کے اکثر
میں سوچتا ہوں اے جانِ جاناں
کہ جانے والا تو اس قدر کیوں
قریب آیا تھا جبکہ میرے
نصیب میں تُو نہیں لکھا تھا
وہ رُت محبت کی یاد کر کے
پلٹ کے جس دم میں دیکھتا ہوں
وہی محبت، وہی رفاقت
وہی عنایت، کہیں نہیں ہے
وہ پیڑ پیپل کا یاد ہے نا
کہ جس کے نیچے وہ ملنے آنا
وہ بیٹھ جانا، وہ گنگنانا
اور ایک دن جب میں لیٹ پہنچا
تو آپ کہنے لگی تھیں مجھ سے
کہاں تھے اب تک جناب عالی
تو میرا ہنس کر جواب دینا
یقین مانو کہیں نہیں تھا
تمہاری جانب ہی آ رہا تھا
میں تیز بائیک چلا رہا تھا
تمہاری سوچوں میں مبتلا تھا
کہ پھر اچانک سڑک سے بائیک کا ٹائر اترا
تو پھر پھسلنے کی دیر کیا تھی
اچھل کے میں بھی گرا سڑک پر
ہاں خیر چوٹیں تو آئیں مجھ کو
بس اتنا سنتے ہی یار تیرا
پکار اٹھنا
کہ ہائے، واقعی
کہاں پہ زخم ہے دکھانا مجھ کو
یہ سنتے میرا وہ مسکرانا
گلے لگا کر ہی سچ بتانا
کہ لیٹ جاگا ہوں معاف کرنا
یہی حقیقت ہے معاف کرنا
نہ میں گرا ہوں نہ چوٹ آئی ہے
جان میری معاف کرنا
تمہارا غصے میں منہ بنا کر وہ روٹھ جانا
اور الجھے لہجے میں پھر یہ کہنا
مجھے اکیلا ہی چھوڑ دو تم
نہیں چلوں گی میں اب کہیں بھی
میں چھوڑ جاؤں گی تم کو بالکل
وہ میرا کہنا اے میری جاناں
خدارا چھوڑو نہ معاف کر دو
نہیں کروں گا پھر ایسی غفلت
بس اتنا سن کر ہی مان جانا
بڑی محبت سے مسکرانا
وہ ساری باتیں ہیں یاد اب تک
مگر تُو واقعی چلی گئی ہے
کہیں نہیں ہے
تُو جا چکی ہے
رفیق آزاد
No comments:
Post a Comment