زہرِ غم دل میں سمونے بھی نہیں دیتا ہے
کرب احساس کو کھونے بھی نہیں دیتا ہے
دل کی زخموں کو کیا کرتا ہے تازہ ہر دم
پھر ستم یہ ہے کہ رونے بھی نہیں دیتا ہے
اشکِ خوں دل سے اُمنڈ آتے ہیں دریا کی طرح
دامنِ چشم بھگونے بھی نہیں دیتا ہے
اٹھنا چاہیں تو گرا دیتا ہے پھر ٹھوکر سے
بے خودی چاہیں تو ہونے بھی نہیں دیتا ہے
ہر گھڑی لگتی ہے انور پہ نئی اک تہمت
کسی الزام کو دھونے بھی نہیں دیتا ہے
ظفر انور
No comments:
Post a Comment