Sunday, 27 June 2021

تمام عمر مجھے اس کی آرزو ٹھہری

تمام عمر مجھے اس کی آرزو ٹھہری

وہ ایک شخص عداوت ہی جس کی خو ٹھہری

جھکی تو اٹھ نہ سکی شرم سے نگاہ طلب

یہ اور بات کہ پھر بھی وہ سرخ رو ٹھہری

مرے لبوں سے اداسی مگر نہ چھوٹ سکی

ہزار ساعت دشوار خوش گلو ٹھہری

لطیف صبح کی ٹھنڈک ہے زندگی تیری

مری حیات بھری دوپہر کی لو ٹھہری

اسے اتار کہ اب ساتھ یہ نہیں دے گی

قبائے کہنگی شرمندۂ رفو ٹھہری

نسیم رات ٹھٹھرتی ہے جا کے سو جاؤ

بدن میں اب وہ کہاں گرمیٔ لہو ٹھہری


نسیم مظفرپوری

نسیم اختر

No comments:

Post a Comment