تمام عمر مجھے اس کی آرزو ٹھہری
وہ ایک شخص عداوت ہی جس کی خو ٹھہری
جھکی تو اٹھ نہ سکی شرم سے نگاہ طلب
یہ اور بات کہ پھر بھی وہ سرخ رو ٹھہری
مرے لبوں سے اداسی مگر نہ چھوٹ سکی
ہزار ساعت دشوار خوش گلو ٹھہری
لطیف صبح کی ٹھنڈک ہے زندگی تیری
مری حیات بھری دوپہر کی لو ٹھہری
اسے اتار کہ اب ساتھ یہ نہیں دے گی
قبائے کہنگی شرمندۂ رفو ٹھہری
نسیم رات ٹھٹھرتی ہے جا کے سو جاؤ
بدن میں اب وہ کہاں گرمیٔ لہو ٹھہری
نسیم مظفرپوری
نسیم اختر
No comments:
Post a Comment