سودائے خام سر سے کافُور کر دیا ہے
دل ان کی یاد نے کیا مسرُور کر دیا ہے
ہر سانس اک لہُو کا دریا بنی ہوئی ہے
دل میں کسی نے ایسا ناسُور کر دیا ہے
اے چشمِ مست جاناں تیری ہی مستیوں نے
نرگس کو یوں چمن میں مخمُور کر دیا ہے
ایمن کے جانے والے ہاں اک نظر اِدھر بھی
جلوہ فروشیوں نے دل طُور کر دیا ہے
پہلے وفا پہ کب تھا آمادہ وہ جفا جُو
میری سِتم کشی نے مجبور کر دیا ہے
ہستی سے میری پہلے واقف نہ تھا زمانہ
اس بُت کی اک نظر نے مشہور کر دیا ہے
خُوش باش اے تصوّر اک حُسن خُود نما نے
جلووں سے خانۂ دل معمُور کر دیا ہے
ہوں بے نیاز صہبا تا حشر اے جمالی
ساقی کی اک نظر نے مخمُور کر دیا ہے
بلقیس جمال بریلوی
No comments:
Post a Comment