شوق سے آئے بُرا وقت اگر آتا ہے
ہم کو ہر حال میں جینے کا ہُنر آتا ہے
غیب سے کوئی نہ دیوار نہ در آتا ہے
جب کئی در سے گزرتے ہیں تو گھر آتا ہے
آج کے دور میں کس شے کی تمنا کیجے
ہوتا کچھ اور ہے، کچھ اور نظر آتا ہے
پہلے اک ہوک سی اٹھتی ہے لب ساحل پر
پھر کہیں جا کے سمندر میں بھنور آتا ہے
خود مِری چیخ سنائی نہیں دیتی مجھ کو
اس طرح دل میں کوئی خوف اتر آتا ہے
ایک تو دیر تلک نیند نہیں آتی ہے
اور پھر خواب بھی تو پچھلے پہر آتا ہے
کس کی تعظیم کو اٹھتی ہیں امنگیں دل کی
ہجرۂ خاص میں یہ کون بشر آتا ہے
ویسے تو کہنے کو سچ بات سبھی کہتے ہیں
اس کی پاداش میں کیوں میرا ہی سر آتا ہے
رسول ساقی
No comments:
Post a Comment