Sunday, 27 June 2021

آلام روزگار کی ماری ہے زندگی

آلامِ روزگار کی ماری ہے زندگی

پھر بھی ہمیں عزیز ہے پیاری ہے زندگی

آسودگانِ عشرتِ ہستی کو کیا خبر

ہم جانتے ہیں جیسی ہماری ہے زندگی

اتنا بتا چکے ہیں کہ؛ کُندن بنا دیا

شعلوں میں غم کے ہم نے نکھاری ہے زندگی

گل شاخ پر کبھی کفِ گلچیں میں ہے کبھی

یکساں جہاں میں کس نے گزاری ہے زندگی

ہر لمحہ زندگی کا امانت کسی کی ہے

ہم زندگی کے ہیں نہ ہماری ہے زندگی

مقدور ہو تو اس کو بدل لیں اجل سے ہم

ایسی فراق دوست میں بھاری ہے زندگی

میکش! ہمیں کہاں حرم و دیر کی خبر

ہم نے تو میکدہ میں گزاری ہے زندگی


میکش بدایونی

رفیق احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment