Saturday 26 June 2021

اک سبز رنگ باغ دکھایا گیا مجھے

 اک سبز رنگ باغ دِکھایا گیا مجھے

پھر خُشک راستوں پہ چلایا گیا مجھے

طے ہو چکے تھے آخری سانسوں کے مرحلے

جب مژدۂ حیات سنایا گیا مجھے

پہلے تو چھین لی مِری آنکھوں کی روشنی

پھر آئینے کے سامنے لایا گیا مجھے

رکھے تھے اس نے سارے سوئچ اپنے ہاتھ میں

بے وقت ہی جلایا بجھایا گیا مجھے

چاروں طرف بچھی ہیں اندھیروں کی چادریں

شاید ابھی فضول جگایا گیا مجھے

نکلے ہوئے تھے ڈھونڈنے خونخوار جانور

کانٹوں کی جھاڑیوں میں چھپایا گیا مجھے

اک لمحہ مسکرانے کی قیمت نہ پوچھئے

بے اختیار پہلے رُلایا گیا مجھے


شاہد میر

No comments:

Post a Comment