Friday 25 June 2021

وہ پھر سے مل جائے مجھ کو کیا ایسا ہو سکتا ہے

 کیا ایسا ہو سکتا ہے


وہ پھر سے مل جائے مجھ کو

کیا ایسا ہو سکتا ہے

روز و شب، ہر ساعت، ہر دم

اس کو سوچتی رہتی ہوں

میرے بہتے اشکوں کو

ممکن ہے چپکے سے آ کر

اس نے خود بھی دیکھ لیا ہو

ایسا بھی تو ہو سکتا ہے

رستے میں جو کھو جاتا ہے

اس کی یاد میں جیون آنسو بن جاتا ہے

میرے دکھ نے اس کو بھی بے چین کیا ہو

رات ہی ساری روتے گزری

میرے اندر

اس کی آوازوں کی گونج

اور باہر گہرا سناٹا

درد نے مجھ کو ایسے میں پیغام دیا ہو

ایسا بھی تو ہو سکتا ہے

کل شب میرے دروازے پر

آخر کس کی دستک تھی

غم نے مجھ کو ڈھونڈ لیا ہو

ایسا بھی تو ہو سکتا ہے

روٹھ کے پہلی بار گیا تھا

اسے منانے کو میں خود بھی تھی بے چین

وہ لوٹ کے خود گھر آیا ہو 


گلنار آفرین

No comments:

Post a Comment