کیا ایسا ہو سکتا ہے
وہ پھر سے مل جائے مجھ کو
کیا ایسا ہو سکتا ہے
روز و شب، ہر ساعت، ہر دم
اس کو سوچتی رہتی ہوں
میرے بہتے اشکوں کو
ممکن ہے چپکے سے آ کر
اس نے خود بھی دیکھ لیا ہو
ایسا بھی تو ہو سکتا ہے
رستے میں جو کھو جاتا ہے
اس کی یاد میں جیون آنسو بن جاتا ہے
میرے دکھ نے اس کو بھی بے چین کیا ہو
رات ہی ساری روتے گزری
میرے اندر
اس کی آوازوں کی گونج
اور باہر گہرا سناٹا
درد نے مجھ کو ایسے میں پیغام دیا ہو
ایسا بھی تو ہو سکتا ہے
کل شب میرے دروازے پر
آخر کس کی دستک تھی
غم نے مجھ کو ڈھونڈ لیا ہو
ایسا بھی تو ہو سکتا ہے
روٹھ کے پہلی بار گیا تھا
اسے منانے کو میں خود بھی تھی بے چین
وہ لوٹ کے خود گھر آیا ہو
گلنار آفرین
No comments:
Post a Comment