Friday 25 June 2021

خاک سے خواب تلک ایک سی ویرانی ہے

 خاک سے خواب تلک ایک سی ویرانی ہے

میرے اندر مِرے باہر کی بیابانی ہے

کوئی منظر کہیں موجود ہے پس منظر میں

ورنہ کیا چیز ہے جو باعثِ حیرانی ہے

کہہ کے دیکھیں گے بہر طور مگر پہلے بھی

دلِ خود سر نے کوئی بات کہاں مانی ہے

کسے معلوم ہے رکنا کہ گزر جانا ہے

شام ہے ٹھہری ہوئی بہتا ہوا پانی ہے

دیکھ یہ دل جو کبھی حد سے گزر جاتا تھا

دیکھ دریا میں کوئی شور نہ طغیانی ہے


اکرم محمود

No comments:

Post a Comment