اب امن و آشتی کا پیمبر نہیں رہا
یعنی وہ بھولا بھالا کبوتر نہیں رہا
یہ کہہ رہے ہیں ساکت و جامد مزاج لوگ
تدبیر کی حدوں میں مقدر نہیں رہا
حاوی تھے اس طرح سے زمانے کے مسئلے
مجھ کو تیرا خیال بھی اکثر نہیں رہا
کیا سنگباری کرتے ہوئے تھک گئے ہو تم
اب کیوں تمہارے ہاتھ میں پتھر نہیں رہا
باطل پرست فوج زمانے پہ چھا گئی
دنیا میں حق شناسوں کا لشکر نہیں رہا
پھر اس درخت پر نہ شگوفے رہے نہ پھل
ایسی ہوا چلی کہ وہ منظر نہیں رہا
دراصل ہم تو آپ ہی منزل شناس ہیں
کچھ غم نہیں ہمیں کوئی رہبر نہیں رہا
لہجہ بدل کے تم نے معانی بدل دئیے
مطلب جو بات کا تھا وہ یکسر نہیں رہا
زریاب میں نے جس کو بھی دیکھا وہ پیاسا تھا
شاید کہ اب جہاں میں سمندر نہیں رہا
ہاجرہ نور زریاب
No comments:
Post a Comment