اب اس سادہ کہانی کو نیا اک موڑ دینا تھا
ذرا سی بات پر عہدِ وفا ہی توڑ دینا تھا
مہکتا تھا بدن ہر وقت جس کے لمس خوشبو سے
وہی گلدستہ دہلیزِ خزاں پر چھوڑ دینا تھا
شکستِ سازِ دل کا عمر بھر ماتم بھی کیا کرتے
کہ اک دن ہنستے ہنستے سازِ جاں ہی توڑ دینا تھا
سفر میں ہر قدم رہ رہ کے یہ تکلیف ہی دیتے
بہر صورت ہمیں ان آبلوں کو پھوڑ دینا تھا
غلط فہمی کے جھونکوں سے بکھر کر رہ گئے آخر
لہو کی آنچ میں ٹوٹے دلوں کو جوڑ دینا تھا
وہ جس پہ ذکر ہے قول و قسم اور عہد و پیماں کا
کتاب زندگی کے اس ورق کو موڑ دینا تھا
بنایا ہی نہیں ہم نے کبھی یہ سوچ کر انجم
کہ گوتم کی طرح اک دن ہمیں گھر چھوڑ دینا تھا
انجم عرفانی
No comments:
Post a Comment