ہر دکھ کو میں جھیلی ہوں
درد بساط پہ کھیلی ہوں
خود سے ہی دل کی بات کروں
اپنی آپ سہیلی ہوں
کیا کوئی مجھ کو جانے گا
ایسی ایک پہیلی ہوں
تیرے جہاں کو مہکاؤں
چمپا اور چنبیلی ہوں
اپنے حصار میں لاؤں تجھے
دستِ دعا کی ہتھیلی ہوں
مجھ میں بستا نہیں کوئی
پر اسرار حویلی ہوں
کروں جو تیرے بس میں نہیں
وہ سرمست البیلی ہوں
اس پر شور زمانے میں
خانم کتنی اکیلی ہوں
فریدہ خانم
No comments:
Post a Comment