Wednesday 23 June 2021

ہر دکھ کو میں جھیلی ہوں

 ہر دکھ کو میں جھیلی ہوں

درد بساط پہ کھیلی ہوں

خود سے ہی دل کی بات کروں

اپنی آپ سہیلی ہوں

کیا کوئی مجھ کو جانے گا

ایسی ایک پہیلی ہوں

تیرے جہاں کو مہکاؤں

چمپا اور چنبیلی ہوں

اپنے حصار میں لاؤں تجھے

دستِ دعا کی ہتھیلی ہوں

مجھ میں بستا نہیں کوئی

پر اسرار حویلی ہوں

کروں جو تیرے بس میں نہیں

وہ سرمست البیلی ہوں

اس پر شور زمانے میں

خانم کتنی اکیلی ہوں


فریدہ خانم

No comments:

Post a Comment