Wednesday 23 June 2021

وار ہوا کچھ اتنا گہرا پانی کا

 وار ہوا کچھ اتنا گہرا پانی کا

نکلا چٹانوں سے رستہ پانی کا

دیکھا خون تو آنکھوں سے آنسو نکلے

جوڑ گیا دونوں کو رشتہ پانی کا

تیروں کی بوچھاڑ بھی سہنا ہے مجھ کو

میرے ہاتھ میں ہے مشکیزہ پانی کا

اُڑتی ریت پہ لکھنا ہے تفسیر اسے

جس نے سمجھ لیا ہے لہجہ پانی کا

پگھلا سونا آنکھوں میں بھر لیتا ہوں

رنگ جو ہو جاتا ہے سنہرا پانی کا

آنکھوں میں جتنے آنسو تھے خشک ہوئے

قحط ہے اب کے دریا دریا پانی کا

چلتا ہوں بے آب زمینوں پر شاہد

آنکھوں میں پھرتا ہے دریا پانی کا


شاہد میر

No comments:

Post a Comment