وار ہوا کچھ اتنا گہرا پانی کا
نکلا چٹانوں سے رستہ پانی کا
دیکھا خون تو آنکھوں سے آنسو نکلے
جوڑ گیا دونوں کو رشتہ پانی کا
تیروں کی بوچھاڑ بھی سہنا ہے مجھ کو
میرے ہاتھ میں ہے مشکیزہ پانی کا
اُڑتی ریت پہ لکھنا ہے تفسیر اسے
جس نے سمجھ لیا ہے لہجہ پانی کا
پگھلا سونا آنکھوں میں بھر لیتا ہوں
رنگ جو ہو جاتا ہے سنہرا پانی کا
آنکھوں میں جتنے آنسو تھے خشک ہوئے
قحط ہے اب کے دریا دریا پانی کا
چلتا ہوں بے آب زمینوں پر شاہد
آنکھوں میں پھرتا ہے دریا پانی کا
شاہد میر
No comments:
Post a Comment