زمین سر پہ رکھے، آسماں ہتھیلی پر
اُٹھائے پھرتے ہیں ہم تو جہاں ہتھیلی پر
میں روز دیکھتا رہتا ہوں اپنے ہاتھوں کو
کہ تیرا نام لکھا ہے کہاں ہتھیلی پر؟
ہر ایک چیز کو لکھا ہے لکھنے والے نے
ہمارا سُود، ہمارا زیاں ہتھیلی پر
تِرے خلاف یہ دنیا ذرا بھی بولے اگر
میں رکھ دوں کاٹ کے سب کی زباں ہتھیلی پر
تمام عمر اسے چُومتا رہوں گا میں
آ، اپنا نام تو لکھ دے یہاں ہتھیلی پر
مِرے نصیب کی ریکھا ہی جل گئی ہے حسن
کہ دیکھتا ہوں عجب سا دُھواں ہتھیلی پر
حسن جعفری
No comments:
Post a Comment