Friday 25 June 2021

ندی یہ جیسے موج میں دریا سے جا ملے

 ندی یہ جیسے موج میں دریا سے جا ملے

تم سے کہیں ملوں میں اگر راستا ملے

ملتی ہے ایک سانس کی مہلت کبھی کبھی

شاید یہ رات بھی تِری صبحوں سے جا ملے

جو بھی ملا وہ اپنی انا کا اسیر تھا

انساں کو ڈھونڈنے میں گئی تو خدا ملے

دل میں ذرا خلوص نہ مہر و وفا کا رنگ

رسماً بہت عزیز، بہت اقربا ملے

میری شکست میں مِرے کچھ مہرباں بھی تھے

میری صفیں جو چھوڑ کے دشمن سے جا ملے

اس سمت سے بھی گزرے نئی رُت کا کارواں

غاروں کے باسیوں کو بھی تازہ ہوا ملے

جاناں یہ زندگی کے عجب سانحات ہیں

کچھ لوگ اپنے آپ سے اکثر خفا ملے


جاناں ملک

No comments:

Post a Comment