ندی یہ جیسے موج میں دریا سے جا ملے
تم سے کہیں ملوں میں اگر راستا ملے
ملتی ہے ایک سانس کی مہلت کبھی کبھی
شاید یہ رات بھی تِری صبحوں سے جا ملے
جو بھی ملا وہ اپنی انا کا اسیر تھا
انساں کو ڈھونڈنے میں گئی تو خدا ملے
دل میں ذرا خلوص نہ مہر و وفا کا رنگ
رسماً بہت عزیز، بہت اقربا ملے
میری شکست میں مِرے کچھ مہرباں بھی تھے
میری صفیں جو چھوڑ کے دشمن سے جا ملے
اس سمت سے بھی گزرے نئی رُت کا کارواں
غاروں کے باسیوں کو بھی تازہ ہوا ملے
جاناں یہ زندگی کے عجب سانحات ہیں
کچھ لوگ اپنے آپ سے اکثر خفا ملے
جاناں ملک
No comments:
Post a Comment