Friday, 25 June 2021

خواب آنکھوں میں نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

 خواب آنکھوں میں نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

عشق مایوس ہوا ہو مگر ایسا بھی نہیں

ان کی الفت میں اٹھائے ہیں ہزاروں الزام

آج تک آنکھ اٹھا کر جنہیں دیکھا بھی نہیں

راہ ہستی میں نگاہیں تو بھٹک سکتی ہیں

دل بھٹک جائے مگر اتنا اندھیرا بھی نہیں

بڑھ کے آئے تھے کئی غم پئے تسکیں لیکن

غمِ دوراں کے مقابل کوئی ٹھہرا بھی نہیں

شرم اے بادہ گساروں کہ بھری محفل میں

بڑھ کے خود جام اٹھا لے کوئی ایسا بھی نہیں

کیا تماشا ہے کہ آئے ہیں تسلی دینے

وہ جنہیں درد شناسی کا سلیقہ بھی نہیں

ہر نظر سطح تبسم پہ ٹھہر جاتی ہے

کیا زمانے میں کوئی غم کا شناسا بھی نہیں

لاکھ نازک سہی امید کا رشتہ لیکن

دل کو احساس کی توہین گوارا بھی نہیں

زندگی کو نئے خوابوں سے سجا کر لاؤ

یہ تبسم تو مِرے غم کا مداوا بھی نہیں

حادثے ہو چکے ارشد غمِ الفت کے تمام

اب تو شاید دل مایوس تڑپتا بھی نہیں


ارشد صدیقی

No comments:

Post a Comment