Friday, 25 June 2021

سسکتی روح کو منظر پہ لاتے موت آئی

 سسکتی روح کو منظر پہ لاتے موت آئی

مجھے یہ جسم کا ملبہ ہٹاتے موت آئی

ہم ایک ساتھ کہانی میں اتنا جچ رہے تھے

کہ قصہ گو کو جدائی بناتے موت آئی

ہمارے گاؤں کی ساری زمینیں بنجر تھیں

ہر اک کسان کو آنسو بہاتے موت آئی

مزاجِ دل تھا محبت میں بادشاہوں سا

سو خشک سالی میں کاسہ اٹھاتے موت آئی

اذیتوں میں گُزاری تھی زندگی ہم نے

کچھ اس لیے بھی ہمیں مسکراتے موت آئی

میں روز خواب سے آنکھوں کا پیٹ بھرتا تھا

پھر ایک شب مجھے لقمے کِھلاتے موت آئی

جُڑی ہوئی تھیں کئی یادیں بام و در سے حسن

مجھے پُرانے مکاں کو گراتے موت آئی


عطاءالحسن

No comments:

Post a Comment