سسکتی روح کو منظر پہ لاتے موت آئی
مجھے یہ جسم کا ملبہ ہٹاتے موت آئی
ہم ایک ساتھ کہانی میں اتنا جچ رہے تھے
کہ قصہ گو کو جدائی بناتے موت آئی
ہمارے گاؤں کی ساری زمینیں بنجر تھیں
ہر اک کسان کو آنسو بہاتے موت آئی
مزاجِ دل تھا محبت میں بادشاہوں سا
سو خشک سالی میں کاسہ اٹھاتے موت آئی
اذیتوں میں گُزاری تھی زندگی ہم نے
کچھ اس لیے بھی ہمیں مسکراتے موت آئی
میں روز خواب سے آنکھوں کا پیٹ بھرتا تھا
پھر ایک شب مجھے لقمے کِھلاتے موت آئی
جُڑی ہوئی تھیں کئی یادیں بام و در سے حسن
مجھے پُرانے مکاں کو گراتے موت آئی
عطاءالحسن
No comments:
Post a Comment