Friday, 25 June 2021

مصائب شہر کے ہوں گے فراواں ہم نہ کہتے تھے

 مصائب شہر کے ہوں گے فراواں ہم نہ کہتے تھے

پریشاں اور بھی ہوں گے پریشاں ہم نہ کہتے تھے

اُجاڑے جائیں گے گُلشن، سجائے جائیں گے مقتل

کئے جائیں گے پھر آباد زنداں ہم نہ کہتے تھے

منایا جائے گا جشنِ بہاراں روند کر ہم کو

ہمارے خون سے ہو گا چراغاں ہم نہ کہتے تھے

سیاسی، مذہبی، نسلی تنفر پال کر دل میں

کریں گے قتل اک دُوجے کو انساں ہم نہ کہتے تھے

نئی تہذیب کا ریلا نہ سب کچھ ہی بہا ڈالے

اگر کچھ کر سکو تو کر لو درماں، ہم نہ کہتے تھے

محبت کے تِرے دعوے ہیں بس مطلب براری تک

دھرے رہ جائیں گے سب عہد وپیماں ہم نہ کہتے تھے

ہے جادو عشق کا شاہیں یہ جب سر چڑھ کے بولے گا

کرے گا ہر قدم پر تم کو حیراں ہم نہ کہتے تھے


شاہین بیگ

No comments:

Post a Comment