Friday, 25 June 2021

سنگ کی طرح سماعت پہ ہنسی لگتی ہے

 سنگ کی طرح سماعت پہ ہنسی لگتی ہے

خیر اب چُپ بھی کہاں مجھ کو بھلی لگتی ہے

دوسرے رنگ نظر ہی نہیں آتے مجھ کو

زرد ایسا ہوں کہ ہر چیز ہری لگتی ہے

ایک ہی عمر ہے دونوں کی مگر دیکھنے میں

میری تنہائی ذرا مجھ سے بڑی لگتی ہے

وہ حویلی ہوں جو آباد نہیں ہو پاتی

گرچہ ہر سمت ہی سے کوئی گلی لگتی ہے

دیکھتا ہوں اسے پھر مُڑ کے کہیں دیکھتا ہوں

وہ مِرے پاس ہے اور دُور کھڑی لگتی ہے

جانے یہ بوجھ ہے کیسا کہ ذرا دم لوں تو

دفعتاَ پیٹھ پہ نادیدہ چھڑی لگتی ہے

اب کُھلا مجھ پہ کہ خود مصرعِ بے وزن ہوں میں

اور مجھے دوسرے مصرع میں کمی لگتی ہے

یہ بھی کیا طرفہ اذیت ہے کہ اب آنکھوں کو

وہی مرجھائی کلی کھِلتی ہوئی لگتی ہے

مَیں اکیلا اسی زندان میں خوش رہ لیتا

تجھ کو دیکھوں تو سزا اور کڑی لگتی ہے

میرے اندر ہیں دراڑیں ہی دراڑیں شارق

پینٹ ہو جانے سے دیوار نئی لگتی ہے


سعید شارق

No comments:

Post a Comment