Friday 25 June 2021

مجھے انتظار تھا شام سے میں بھرا ہوا تھا کلام سے

 مجھے انتظار تھا شام سے، میں بھرا ہوا تھا کلام سے

‎مِری اپنے آپ سے گفتگو، کوئی دیکھتا در و بام سے

‎کوئی نہر تھی نہ درخت تھا، یہ کئی زمانوں سے دشت تھا

‎یہاں شہر بستے چلے گئے، مِرے دل میں تیرے قیام سے

‎مِری بزم سے جو چلا گیا، تو پتا چلا اسے رنج تھا

‎اسے رنج تھا کہ میں دیکھتا، میں پکارتا اسے نام سے

‎یہ جو تجھ میں اتنا جمال ہے مِرے آئینے کا کمال ہے

تِرا رنگ ملتا ہے پھول سے تِرے ہونٹ لگتے ہیں جام سے


فیصل ہاشمی

No comments:

Post a Comment