مجھے انتظار تھا شام سے، میں بھرا ہوا تھا کلام سے
مِری اپنے آپ سے گفتگو، کوئی دیکھتا در و بام سے
کوئی نہر تھی نہ درخت تھا، یہ کئی زمانوں سے دشت تھا
یہاں شہر بستے چلے گئے، مِرے دل میں تیرے قیام سے
مِری بزم سے جو چلا گیا، تو پتا چلا اسے رنج تھا
اسے رنج تھا کہ میں دیکھتا، میں پکارتا اسے نام سے
یہ جو تجھ میں اتنا جمال ہے مِرے آئینے کا کمال ہے
تِرا رنگ ملتا ہے پھول سے تِرے ہونٹ لگتے ہیں جام سے
فیصل ہاشمی
No comments:
Post a Comment