کوئی نہ ایسا ملا جس پہ مجھ کو پیار آئے
رہِ حیات میں چہرے تو بے شمار آئے
چمن سے اب بھی مہک آ رہی ہے جلنے کی
کبھی تو لے کے صبا بُوئے خوشگوار آئے
حرم کی شکل بگاڑی حرم نشینوں نے
خدا کا شکر ہے ہم مے کدہ سنوار آئے
رہِ وفا کی مسافت کا جن کو سودا تھا
چلے جو چار قدم، ہو کے پا فگار آئے
وفا کے نام پہ قاتل سے لے گئے بازی
سر اپنا لے کے ہتھیلی پہ جاں نثار آئے
نصیب مجھ کو ہوئی ہے نہ ہو سکے گی کبھی
وہ زندگی مِرے اجداد جو گزار آئے
ہمارے دل میں ہے اس کی ہمیں خبر ہی نہیں
کہاں کہاں نہ اسے جا کے ہم پکار آئے
غزل کا دے نہ سکے ہم اسے کوئی پیکر
ہمارے ذہن میں مصرعے تو بار بار آئے
گدا کا بھیس بھی لازم تھا بھیک کی خاطر
سہیل آپ تو گڈری کو ہی اتار آئے
سہیل فاروقی
No comments:
Post a Comment