ہاتھ میرے بھی اگر دل کے خزانے لگ جائیں
جتنے غم ہیں مِرے پل بھر میں ٹھکانے لگ جائیں
اتنا کمزور نہ کر اپنے شجر کو مولا
خشک پتے بھی اسے آنکھ دکھانے لگ جائیں
بند مانا کہ ابھی بابِ عطا ہے، پھر بھی
سر کو ہم اپنے ہر اک در پہ جھکانے لگ جائیں
یہ سمجھئے گا کہ ہیں آپ کے قد سے خائف
لوگ جب راہ میں دیوار اٹھانے لگ جائیں
جب خدا نے ہمیں بخشی ہے سخن کی دولت
کیوں گویّے کی طرح چیخ کے گانے لگ جائیں
کاش پھر لوٹ کے آ جائے سہانا بچپن
ہم بھی بچوں کی طرح خاک اڑانے لگ جائیں
یہ سمجھئے گا کہ نزدیک قیامت ہے ضمیر
بے ادب لوگ جب آداب سکھانے لگ جائیں
ضمیر یوسف
No comments:
Post a Comment