صندل جیسی دعا (فلسطین کے لیے)
کوئی بتلائے
اس سر زمین کا مقدر ابھی تک
کس لیے خاک و خوں سے ہے آلودہ آخر
کس لیے روز اٹھتے ہیں تازہ جنازے وہاں پر
کس لیے غم کی دیوار گرتی نہیں
روز سجتے ہیں کیوں موت کے اتنے میلے
ظلم کی آندھیاں کب تلک
سر سے عصمت کے چھینیں گی رنگین ردائیں
تار تار ان کے آنچل ہیں گریہ کناں
ان کی آغوش ویران ہوتی ہے ہر دن
اور وہ صبر سے اپنے ٹوٹے دلوں کو
زندہ کرتی ہیں پھر اک نئے عزم کی روشنی سے
ظالموں، قاہروں، جابروں سے
یہ لڑتے ہوئے زندہ انساں
انقلابِ مسلسل کی تاریخ لکھتے ہیں اپنے لہو سے
ہم نے ارضِ فلسطین کا جب بھی تصور کیا ہے
اس کی صندلی سی بھینی خوشبو
اک دعا کی طرح پھیلتی ہے فضا میں
کامراں ہوں فلسطیں کے سارے باسی
تو ختم ہو زندگی کی اداسی
شمع افروز
No comments:
Post a Comment