Thursday, 4 November 2021

سب سلسلے جنوں کے خطرناک ہو گئے

 سب سلسلے جنوں کے خطرناک ہو گئے

بھڑکی وہ آگ عشق میں بس خاک ہو گئے

ساحل کی چاہ میں تو کنارے کھڑے کھڑے

ہم وقت کے سراب میں تیراک ہو گئے

میری کتاب کے جو ورق تھے، صدا بنے

پھر دیکھتے ہی دیکھتے بے باک ہو گئے

دیکھا دھنک نے ہم کو کچھ اس زاویے کے ساتھ

اس کی نظر کے رنگ ہی پوشاک ہو گئے

پھر یوں ملے کہ جیسے کوئی اجنبی تھے ہم

دونوں طرف ہی دیدۂ نمناک ہو گئے

کیا ہے جو شمع بزم کو روشن نہ کر سکی

کارِ ہوس میں لوگ تو چالاک ہو گئے


شمع افروز

No comments:

Post a Comment