سب سلسلے جنوں کے خطرناک ہو گئے
بھڑکی وہ آگ عشق میں بس خاک ہو گئے
ساحل کی چاہ میں تو کنارے کھڑے کھڑے
ہم وقت کے سراب میں تیراک ہو گئے
میری کتاب کے جو ورق تھے، صدا بنے
پھر دیکھتے ہی دیکھتے بے باک ہو گئے
دیکھا دھنک نے ہم کو کچھ اس زاویے کے ساتھ
اس کی نظر کے رنگ ہی پوشاک ہو گئے
پھر یوں ملے کہ جیسے کوئی اجنبی تھے ہم
دونوں طرف ہی دیدۂ نمناک ہو گئے
کیا ہے جو شمع بزم کو روشن نہ کر سکی
کارِ ہوس میں لوگ تو چالاک ہو گئے
شمع افروز
No comments:
Post a Comment