احساس دیکھ پائے وہ منظر تلاش کر
آنکھیں جو ہیں تو بُوئے گلِ تر تلاش کر
تیرا بدن تو ٹوٹ گیا وصل ہی کی شب
اب آئینے میں خود کو نہ دن بھر تلاش کر
ہر دل سے مانگتا ہے جو تازہ لہو کی بھیک
بستی میں کوئی ایسا گداگر تلاش کر
میرا وجود جذب ہوا تیرے جسم میں
اب مجھ کو اپنے جسم کے اندر تلاش کر
تنہائیوں کے گہرے سمندر میں ڈوب جا
زخموں کے پھول درد کے گوہر تلاش کر
میں تھک گیا ہوں خاک بیاباں کی چھان کر
موجِ نسیم! تُو ہی مِرا گھر تلاش کر
دشت وفا میں یوں نہ بھٹک در بہ در نوید
سر بن گیا ہے بوجھ تو پتھر تلاش کر
علی الدین نوید
No comments:
Post a Comment