خدا سے او صوفئ خدا!! جو لگاؤ تجھ کو ہزار ہو گا
مگر اکارت، اگر نہ تجھ کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
نظامِ نو کے بدلنے والو! ذرا تو سن لو یہ گوشِ دل سے
اگر ہیں اس میں ہوس کی اینٹیں تو یہ بھی ناپائیدار ہو گا
حریمِ تقدیرِ خاوری سے پیام لائی ہے صبحِ مشرق
کہ سو رہا ہے جو گہری نیندیں وہ ایشیا ہوشیار ہو گا
بکھر ہی جائیں گی یہ گھٹائیں غلامیوں کی بفضل ایزد
شعاعِ خورشید حرّیت سے وطن مِرا تابدار ہو گا
غرور جن کو ہے لشکروں پر، سنیں کہ ساعت وہ آ رہی ہے
نہ ان کے لشکر رہیں گے باقی، نہ ان کا باقی وقار ہو گا
دو چار ساعت زمانے والے حریفِ بسمل ہوئے تو کیا ہے
جو شہسوارِ زمانہ ہو گا، یہی تِرا خاکسار ہو گا
ذکاءاللہ بسمل
No comments:
Post a Comment