دروازے کُھلتے ہیں دل کے اندر بھی اور باہر بھی
باہر جتنی خاموشی ہے، شور ہے اتنا اندر بھی
میرے ہاتھ کسی کاغذ پر کرچیں چُنتے رہتے ہیں
چُھوٹ گیا ہے ساتھ کسی کا، ٹُوٹ گیا ہے ساغر بھی
تنہائی، رونے کا ساماں بستر تک لے آئی ہے
وحشت اتنی بیش ہوئی ہے کم پڑتی ہے چادر بھی
ایک غنیم کا لشکر بھی ہے دریا کے دو دھاروں پر
کرب و بلا کے اس منظر میں پیاسا ہے اک اصغرؑ بھی
میر! کسی کے بارے میں کچھ بیش از بیش نہیں کہتا
عشق میں دونوں زرد ہوئے ہیں مجنوں بھی اور ساگر بھی
میر ساگر رحمان
No comments:
Post a Comment