Thursday, 1 September 2022

ہر ایک دکھ نہ سپرد قلم کیا جائے

 ہر ایک دُکھ نہ سپردِ قلم کِیا جائے

یہ عشق ہے اسے کم کم رقم کیا جائے

میں ایک بھٹکے ہوئے عشق کی لپیٹ میں ہوں

سو مجھ پہ سورۂ یوسف کا دَم کیا جائے

میں رقص کرتا ہوں جی بھر کے خاک اڑاتا ہوں

مجھے بھی دشت کی وحشت میں ضم کیا جائے

مِرے لہو سے کیا جائے راستہ روشن

مِرا پھٹا ہوا کُرتا عَلَم🏴 کیا جائے

سنائی جائے کوئی داستاں محبت کی

میں تھک چکا ہوں مجھے تازہ دم کیا جائے

فلک کو سونپ دئیے جائیں یہ فلک زادے

زمیں کے بوجھ کو تھوڑا سا کم کیا جائے

جہان عشق ہے ہر شے سے ماورا شہزاد

یہاں نہ ذکرِ وجود و عدم کیا جائے


قمر رضا شہزاد 

No comments:

Post a Comment