میں اپنے صبر کے اعجازِ ارتقا میں رہوں
عدو کا شہر ہے پھر بھی صفِ دعا میں رہوں
وہ جس نے زندگی دیکھی رضا کے عالم میں
مِری سزا ہے اسی چشم بے خطا میں رہوں
وہ مہر و ماہ ابھی روشنی لٹاتے ہیں
میں روز و شب اسی قندیل کی عطا میں رہوں
اکیلا پن بھی حقیقت میں کوئی کیچڑ ہے
کنول کے پھول کی مانند اس بلا میں رہوں
وہ پہلے موتیا تھا، اب گلاب ہو گیا ہے
ابھی کچھ اور اسی عشق نا رسا میں رہوں
وہ اپنے قصرِ ریاست کا شاہزادہ ہے
میں چشمِ خواب میں پھر بھی اسے بسا کے رہوں
اسے پسند ہیں غالب کی دلنشیں غزلیں
سو میں غزل کے اسی عہدِ دلربا میں رہوں
مرید عباس خاور
No comments:
Post a Comment