منافقت کہاں نہیں تھی
منافقت پہلے پردہ کرتی تھی
شرماتی تھی
اب سرِ شام بن سنور کر
ثقافتی مرکز میں بیٹھی
سِگریٹ کا دھواں اڑاتی ہے
دعوتِ گناہ دیتی ہے
دانشوروں کی محفل میں
فلسفوں کی جُگالی کرتی ہوئی نظر آتی ہے
شاعروں کی بستر پر نظمیں پہنے پڑی رہتی ہے
ادبی اداروں میں گروہ بناتی ہے
فنکاروں کے درمیان قہقہے لگاتی ہے
غیبت کرتی ہے
سرکاری دفتروں میں اونگھتی رہتی ہے
چمکتے چہروں کے تعاقب میں کوشاں
محبت کرنے والوں کے بیچ
خاموشی سے داخل ہو جاتی ہے
مفادات سے تعلق استوار کر لیتی ہے
اور لمحوں میں تقسیم ہو جاتی ہے
وجیہہ وارثی
No comments:
Post a Comment