زندگی کو اک کہانی چاہیۓ
خشک دریا کو روانی چاہیۓ
دل کو اک خوابوں کی رانی چاہیۓ
سرحدوں کی نگہبانی چاہیۓ
چوم لے بڑھ کر مری تحریر کو
میرے لفظوں کو معانی چاہیۓ
کامیابی نہ ملے تو نہ سہی
اپنی قسمت آزمانی چاہیۓ
بک رہی ہے کوڑیوں میں شاعری
آپ کو قیمت لگانی چاہیۓ
دیکھنے کے واسطے بزم جہاں
شرم کا آنکھوں میں پانی چاہیۓ
آئیں جب پلکوں کے دسترخوان پر
آنسووں کی میزبانی چاہیۓ
دوسروں کے دل میں رہنے کے لیے
شاعری تھوڑی سی آنی چاہیۓ
داد دیتے ہو ہمارے عیب پر
آپ کو انگلی اٹھانی چاہیۓ
چھین لے پیمانۂ سقراط کو
گر حیاتِ جاودانی چاہیۓ
یار احساس ندامت کے لیے
کچھ تری آنکھوں میں پانی چاہیۓ
کون اترا میرے دل کے طور پر
ہر نفس کو لن ترانی چاہیۓ
مسند شاہی مبارک آپ کو
دل کو دل پر حکمرانی چاہیۓ
دل سکندر پوری
No comments:
Post a Comment