Saturday 11 February 2023

اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے

 اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے

زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے

اگر چاہیں تو وہ دیوار کر دیں

ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے

ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا

تو کشتی کام لے کیا بادباں سے

بھٹکنے سے ملے فرصت تو پوچھیں

پتا منزل کا میرِ کارواں سے

توجہ برق کی حاصل رہی ہے

سو ہے آزاد فکر آشیاں سے

ہوا کو رازداں ہم نے بنایا

اور اب ناراض خوشبو کے بیاں سے

ضروری ہو گئی ہے دل کی زینت

مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے

فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے

مگر فرصت نہ تھی کارِ جہاں سے

وگرنہ فصلِ گل کی قدر کیا تھی

بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے

کسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید

زمانے بھر سے ہیں ہم خود گماں سے

میں اک اک تیر پہ خود ڈھال بنتی

اگر ہوتا وہ دشمن کی کماں سے

جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں

انہیں تکلیف کیوں پہنچے خزاں سے

جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں

انہیں کیا حق کہ روٹھیں باغباں سے


پروین شاکر

No comments:

Post a Comment