گلے کے سانپوں سے لڑنے والو ان آستینوں کا کیا کرو گے
جو یار سینے میں بغض رکھتے ہوں ان کمینوں کا کیا کرو گے
تمہاری آنکھوں کو زرد بیلوں کی آبیاری سے کیا ملے گا
نکال پھینکو حنوط لمحوں کو، ان دفینوں کا کیا کرو گے
نظر کے عدسے میں ایک مُشتِ غبار کب تک دکھائی دے گا
خلا سے خالی نگاہ لوٹی تو دوربینوں کا کیا کرو گے
ہزار ماتھوں پہ لَو بناؤ،۔ ہزار سجدے نشان ڈالیں
جو دل کے دامن پہ داغ ٹھہرے تو ان جبینوں کا کیا کرو گے
وطن کی حرمت پہ جان دیتی غزہ کی بیٹی یہ پوچھتی ہے
تم ابنِ قاسم کے جائے گھوڑوں کی سرد زینوں کا کیا کرو گے
حیا کا پردے کا درس دیتے شریف زادوں سے پوچھنا تم
کہ ساری باتیں بجا ہیں لیکن تماش بینوں کا کیا کرو گے
عاطف جاوید عاطف
No comments:
Post a Comment