آ گیا تو خاطرِ مہمان کر
جو بھی ہے وہ زیبِ دسترخوان کر
خُود غرض دُنیا کو اپنا مان کر
آخرت کا اپنی مت نقصان کر
عُمر بھر گِنتا رہا لوگوں کے عیب
کیا مِلا چھلنی سے پانی چھان کر
عاجزی کو بے بسی کہتے ہیں لوگ
چلیے اب چلتے ہیں سینہ تان کر
تُو دھنی ہے تو یہ سِکے مت بتا
اپنی خُوشیوں میں سے خُوشیاں دان کر
اپنے دل کو تُو خُدا کا گھر بنا
مُردہ جذبوں کا نہ قبرستان کر
وقت کا سُورج تو کب کا ڈھل چکا
سو رہے ہیں لوگ لمبی تان کر
تُو ہی میرا ہے تو پھر کیا پُوچھنا
مُطمئن ہوں تجھ کو اپنا مان کر
ظہیر عالم
No comments:
Post a Comment