Saturday, 11 February 2023

آئین تیرگی ہے تقاضائے شب منتقم

 آئینِ تیرگی


ہے تقاضائے شبِ منتقم

کہ جو باقی ماندہ ہیں چند جگنو

فسادِ صبح کی علامتیں ہیں

خلافِ آئینِ تیرگی ہے 

رہے جو امکان سحر باقی 

سو نوچ لو 

سب چمکتی آنکھیں

سنو

فجر کا کوئی مؤذن 

دریدہ دہنی سے کام لے کر

جو خواب زادوں کو پھر جگائے

تو کاٹ ڈالو

زبان اس کی

یہ شاہی فرمان عام کر دو

کہ اب یہاں پر

جہانِ شب میں

فقط عقیدے کا راج ہو گا

عقیدہ یہ ہے

کہ آخرِ شب ملے گی جنت

جو سُرخ نہروں پہ مشتمل ہے

وہاں کھڑی ہیں 

وہ شوخ و بے باک لاکھوں حُوریں

کہ جن کے ہونٹوں پہ خونِ انساں کی سُرخیاں ہیں


الطاف بخاری

No comments:

Post a Comment