اس بحث میں کیا پڑنا کسے بُھول گئے ہیں
ہم دشت میں کب پیڑ ہوئے، بھول گئے ہیں
کچھ قابلِ رشک اپنی محبت بھی نہیں تھی
کچھ شہرتِ دوراں سے ڈرے، بھول گئے ہیں
میں گرد کو اوڑھے ہوئے مُدت سے پڑا ہوں
وہ ہاتھ کہیں رکھ کے مجھے بھول گئے ہیں
اسباق تِرے یاد ہیں، احسان بھی سارے
جا، گردش ایّام! تجھے بھول گئے ہیں
اب زخم کو تازہ کوئی رکھے بھی تو کیونکر
اب یاد بھی کیا کرنا جسے بھول گئے ہیں
ہم لمبی مسافت میں کسی ہاتھ سے چُھوٹے
ہم لوگ کہاں کس کو ملے، بھول گئے ہیں
ہم زنگ زدہ قُفل کی تمثیل تھے صابر
کب کیسے کسی دل میں پڑے بھول گئے ہیں
صابر چودھری
No comments:
Post a Comment