دوری بیچ میں لے آئیں گے
آپ بتائیں! سہہ پائیں گے
میری مرگ پہ پُرسہ دینے
لوگ تمہارے پاس آئیں گے
تیرے بارے میں لوگوں کو
جانے کیسے بتلائیں گے
تیرے بِن یہ کالے بادل
چھائیں گے تو کیا چھائیں گے
تم آواز بچا کر رکھنا
مِل کر گیت کوئی گائیں گے
ان ہاتھوں میں لمس ہے تیرا
مہندی سے کیوں بہلائیں گے
اب تو خیر بھلا دیتے ہو
یاد کرو گے، یاد آئیں گے
لفظوں کو تو رہنے دیجے
کچھ آنکھوں سے فرمائیں گے
جن نظروں سے دیکھ رہے ہو
ہونٹ ملانے پڑ جائیں گے
ایک رباب اور دُھن بھیروں کی
کب تک جی کو سُلگائیں گے
فوزیہ رباب
No comments:
Post a Comment