آخری بوسہ
مِرے ہونٹوں پہ اس کے آخری بوسے کی لذت ثبت ہے
وہ اس کا آخری بوسہ
جو مستقبل کے ہر اک خوف سے آزاد
اک روشن ستارا تھا
گزرتی رات کے ننگے بدن پر تل کی صورت قائم و دائم
ہمیشہ جاگنے والا ستارا
میں جسے اس آگ برساتے ہوئے سورج کے آگے
جگمگاتا دیکھ سکتا ہوں
وہ اس کا آخری بوسہ
جو اس نفرت بھری دنیا میں
اک خوشبو کا جھونکا تھا
بکھرتی پتیوں میں موسم گل کے اشارے کی طرح
اک ڈولتی خوشبو کا جھونکا
میں جسے اس حبس کے کالے قفس کی تیلیوں سے
مسکراتا دیکھ سکتا ہوں
وہ اس کا آخری بوسہ
جو ان مرتی ہوئی صدیوں میں
اک بے انت لمحہ تھا
تلاطم میں کسی ساحل کی پہلی دید سا
انمول اور بے انت لمحہ
میں جسے اشکوں کی اس دیوار میں
رخنے بناتا دیکھ سکتا ہوں
مِرے ہونٹوں پہ اس کے آخری بوسے کی لذت ثبت ہے
وہ اس کا آخری بوسہ جو میں اپنے بدن میں
سانس صورت آتا جاتا دیکھ سکتا ہوں
لہو کی خامشی میں سرسراتا دیکھ سکتا ہوں
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment