جیسے ماضی میں کھلا، ویسے ادھورا نہ کھلے
بھید کھلنا ہے تو اب کے سرِ مے خانہ کھلے
دشمنِ جاں کا خیال آئے تو زندان کے رب
اس تپش سے مِری زنجیر کا ٹانکا نہ کھلے
مجھے دینی ہے تو دے طاقتِ پرواز مگر
میرا پنجرہ مِرے ہونٹوں سے زیادہ نہ کھلے
ہاتھ سے آخری دستک بھی رِہا کر چکا ہوں
آگے دروازے کی مرضی ہے کھلے یا نہ کھلے
کوئی آتا نہیں کرنے کو ورق گردانی
مدتیں بیت گئیں دل میں کتب خانہ کھلے
صفحوں پر لفظ نہیں، دل ہیں اسامہ خالد
کیسے پھر اس پہ محبت کا فسانہ، نہ کھلے
اسامہ خالد
No comments:
Post a Comment